Monday, July 18, 2022

🥀 _*ســـیرت النبیﷺ*_ 🥀(Seerat Un Nabi)


🥀 _*ســـیرت النبیﷺ*_ 🥀



*قسط نمبر63*

*آپﷺ کی عائلی (خانگی) زندگی*
کسی بھی انسان کے اخلاق کی سب سے بڑی آزمائش کی جگہ خود اس کا گھر ہے گھر کے لوگوں سے صبح و شام اور شب و روز کا سابقہ پڑتا ہے گھر کے ماحول میں انسان اپنا حقیقی مزاج چُھپا نہیں سکتا اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا
تم میں سب سے بہتر اخلاق اس کے ہیں جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ بہتر اخلاق رکھتا ہو
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خارجی زندگی کی ذمہ داریاں اتنی متنوع اور وسیع تر تھیں کہ ان کے ساتھ اپنے اہل خانہ اور افراد خاندان کے لیے وقت نکالنا اور ان کے حقوق کی رعایت کرنا آج کے زمانہ کو دیکھتے ہوئے ایک مشکل ترین بات تھی لیکن حیات مبارکہ کے مطالعہ سے یہ بات کُھل کر سامنے آتی ہے کہ ازواج مطہرات ہوں یا اولاد خدام ہوں یا اقربا متعلقین ہوں یا احباب، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہر ایک کے حقوق کی رعایت فرماتے اور زندگی کے کسی بھی موڑ پر آپ اس سے غافل نظر نہیں آتے ہر آن آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ان کے حقوق کی فکر دامن گیر رہتی ایسا بھی نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے ماتحت افراد کے لیے تندخو اور سخت گیر سرپرست کی حیثیت رکھتے ہوں بلکہ بیویوں کے حق میں ایک محبت کرنے والے شوہر اولاد کے حق میں ایک شفیق و مہربان باپ اور خدام کے حق میں ایک فراخ چشم اور حلیم و بردبار آقا کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تصویر ابھرتی ہے
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جملہ گیارہ شادیاں کیں اور بیک وقت نو بیویاں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا معمول تھا کہ جب مدینہ میں ہوتے تو عصر کی نماز کے بعد تمام ازواج کے پاس جاتے اور ہر ایک کی ضرورت معلوم کرتے اور اس کی تکمیل فرماتے، ازواج کے مابین شب باشی کی باری متعین ہوتی، گو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر اس کی پابندی شرعاً لازم نہیں تھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بہ طور خود پوری سختی کے ساتھ اس کا اہتمام کرتے۔ ایک مرتبہ کسی بات پر حضور اقدسﷺ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے ناراض ہو گئے.حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئیں اور کہا آپ جانتی ہیں کہ میں اپنی باری کسی چیز کے معاوضے میں نہیں دے سکتی. لیکن اگر آپ سرورﷺ کو مجھ سے راضی کر دیں تو میں اپنی باری کا دن آپ کو دے سکتی ہوں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضورﷺ کی خدمت میں تشریف لے گئیں آپﷺ نے فرمایا عائشہ (رضی اللہ عنہا) تمہاری باری کا دن نہیں وہ بولیں یہ اللہ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے پھر تمام واقعہ حضورﷺ سے کہہ سُنایا حضورﷺ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے راضی ہو گئے ازواج کے مابین انصاف کا خیال اور اس سلسلہ میں عند اللہ جواب دہی کا احساس اتنا شدید تھا کہ اللہ رب العزت سے دُعا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا معمول تھا کہ جب سفر پر روانہ ہوتے تو ازواج کے درمیان قرعہ اندازی کرتے جس کا نام قرعہ میں نکل آتا ان کو ساتھ لے جاتے
آپ کی عائلی زندگی بھی اسلام کے اس مزاج و مذاق کی آئینہ دار ہے ایک مرتبہ مسجد نبوی میں عیدالفطر کے موقع پر چند حبشی نوجوان نیزوں سے کھیل رہے تھے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے دیکھنے کی خواہش کی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم آگے کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مونڈھے اور گردن کے درمیان سے میں کھیل دیکھتی رہی
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم دونوں ایک ہی برتن سے غسل کرتے اور پانی لینے میں چھینا جھپٹی بھی ہوتی کبھی دوڑ کا مقابلہ بھی ہوتا ایک مرتبہ دوڑ کا مقابلہ ہوا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں آگے بڑھ گئیں اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم پیچھے رہ گئے پھر کچھ زمانے کے بعد یہی مقابلہ ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سبقت حاصل کی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اس کا بدلہ ہو گیا
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا معمول مبارک تھا کہ گھر میں داخل ہوتے تو آپ پہلے سلام کرتے اور ایسا انداز ہوتا کہ سونے والے بیدار نہ ہوں اور جو بیدار ہوں سلام کی آواز سن لیں اگر گھر میں کوئی چھوٹا موٹا کام ہوتا تو خود انجام دے لیتے حضرت اسود سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم گھر میں آ کر کیا کرتے تھے؟ 
انھوں نے فرمایا اپنے گھر والوں کی خدمت یعنی گھریلو زندگی میں حصہ لیتے تھے اور گھر کا کام بھی کرتے تھے مثلاً بکری کا دودھ دوھ لینا اپنے نعلین مبارک سی لینا
(زاد المعاد)
گھر میں جو کھانا تیار ہوتا حاضر کر دیا جاتا آپ کی مرغوب اور پسندیدہ شئی ہوتی تو تناول فرماتے ورنہ خاموشی اختیار کرتے لیکن کھانے میں کوئی عیب نہیں لگاتے دن کے کھانے کے بعد تھوڑی دیر قیلولہ کرتے رات میں عشاء کی نماز کے بعد غیرضروری جاگنے کو بالکل ناپسند کرتے آپ کا بستر بالکل معمولی ہوتا بسا اوقات چمڑے کا بستر ہوتا اور اس میں کھجور کی چھال بھری ہوتی اور کبھی چمڑا ہوتا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اسی پر آرام فرماتے
آپ کو بچوں سے بہت محبت تھی راستہ میں بچے کھیلتے ہوئے مل جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان کو سلام کرتے گھر میں بچوں کے ساتھ خوش مزاجی سے پیش آتے ان کو کاندھے پر بٹھاتے گود میں لیتے پیار کرتے چومتے معلوم ہوا کہ مزاج میں اتنی سختی نہ ہونی چاہیے کہ بچے دیکھتے ہی سہم جائیں اور چُھپنے لگیں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ کسی ضرورت سے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس آیا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ملاقات ہوئی میں نے محسوس کیا آپ کچھ اٹھائے ہوئے ہیں میں نے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تھیلی کھولی اس میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ تھے آپ نے فرمایا یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں۔ اے اللہ ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان دونوں سے محبت فرما اور اس شخص سے بھی جو ان دونوں سے محبت رکھے
خادموں کے ساتھ شب و روز اور ہر وقت کا ساتھ ہوتا ہے، کوتاہی لغزش بُھول چوک انسانی فطرت ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خادمِ خاص حضرت انس بن مالک کا بیان ہے کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دس سال خدمت کی لیکن کبھی اُف تک آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نہیں کہا اور نہ کبھی یہ کہا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا اور جس کام کو میں نہیں کرتا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہ نہیں فرماتے کہ تونے یہ کام کیوں نہیں کیا۔ دس سال کی رفاقت کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کبھی *اُف* تک نہیں کہا یہ تحمل و بردباری اور شفقت کی ایک مثال ہے
ایک کامل اور مکمل انسانی زندگی کی بنیادی شناخت یہ ہے کہ دُنیا میں چھوٹے بڑے حاکم و محکوم، دوست و دشمن اپنے اور پرائے امیر وغریب ہرسطح اور ہرطبقہ کے لوگوں سے جہاں اس کے تعلقات روشنی میں ہوں اور لوگوں کے لیے مشعل راہ کا درجہ رکھتے ہوں وہیں اپنی ازواج خدام اولاد متعلقین اور اقرباء و رشتہ داروں میں بھی وہ محبوب و مقبول ہوں اور ان کے ساتھ تعلق و سلوک کے باب میں بھی اس کی زندگی اسوہ اور مثال ہو اس طور پر دیکھا جائے تو پیغمبر اسلام کی زندگی اپنی مثال آپ ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عائلی زندگی کا جو نقشہ بنایا اور خود اس پر عمل کرکے دکھایا حقیقت یہ ہے کہ وہ عائلی اور ازدواجی زندگی کے لیے بہترین نمونہ اور ہرطرح کی بے سکونی کا علاج اور اکسیر ہے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات طیبہ کے آئینہ میں ہم اپنی گھریلو زندگی کی صحیح صورت گری کرسکتے ہیں

*رسول اللہﷺ کی سماجی زندگی*
حیات طیبہ کی جمال وجلال آفریں روشنی اور ضیاء بار کرنیں انسانی زندگی کے ہر شعبہ پر یکساں پڑتی ہے سیاسی زندگی ہو یا معاشی زندگی انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی سماجی زندگی ہو یا زندگی کا کوئی اور ایسا پہلو اور پھر زندگی کے کسی بھی شعبہ کا کوئی بھی مرحلہ درپیش ہو سیرت طیبہ کے بحر بیکراں میں اس کی ہدایت و رہنمائی کی در نایاب موجود ملتے ہیں، اس لیے کہنے والے نے دُرست کہا ہے
انسانی زندگی اپنے حقیقی روپ میں سماج کے اندر ہی جلوہ فگن ہوتی ہے رسول کریم صلى اللہ علیہ والہ وسلم کی پاکیزہ زندگی انسانی سماج کے لیے بیش بہا متاع گراں مایہ ہے بہتر انسانی سماج کی تشکیل اور ہر فرد سماج کی فلاح و بہبود حیات طیبہ کی وہ عطر بیزی ہے جس کی خوشگوار بھینی بھینی خوشبوؤں سے انسانی چمن بارہا معطر ہوتا رہتا ہے
سماج افراد سے وجود میں آتا ہے اور افراد کی جان عزت اور مال و آبرو کا تحفظ اس کے وجود و بقاء کے لیے لازم ہوتا ہے، رسول کریم صلى اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات طیبہ نے انسانی جان کو اتنا محترم اور قیمتی بنایا کہ ناحق کسی انسان کی جان لینے کو نہ صرف بہت بڑا گناہ بتایا بلکہ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے برابر قرار دیا اور اس دروازے کو سختی سے بند کرنے کا مضبوط نظام قائم فرمایا عزت و آبرو اور دوسرے کے مال پر کسی قسم کی دست درازی کو سخت تعزیری جُرم قرار دے کر ہر فرد کی عزت اور مال کے تحفظ کی ضمانت فراہم فرمائی
رسول کریم صلى اللہ علیہ والہ وسلم کی سماجی زندگی ایک بہترین اور مکمل انسان کی زندگی ہے جس کے اخلاق فاضلہ کی روشنی سے ہر دور کے انسانی سماج کو منور کیا جاسکتاہے رسول صلى اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا مسلمانوں میں کامل ایمان اس کاہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں آپ صلى اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ انسان حسن اخلاق سے وہ درجہ پاسکتا ہے جو دن بھر روزہ رکھنے اور رات بھر نماز پڑھنے سے ملتا ہے اخلاق کو اتنی اہمیت اس لیے دی گئی کہ انسانی سماج کی بہتر تشکیل اخلاقی خوبیوں کی بنیاد پر ہی ہوتی ہے خود آپ صلى الله عليه وسلم کی حیات طیبہ اخلاق کے بلند مقام پر تھی قرآن نے کہا *اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ* بے شک آپ اخلاق کے بڑے درجے پر ہیں
مساوات و برابری اور عدل و انصاف بہتر انسانی سماج کی تشکیل کےلیے ضروری ہیں۔ رسول صلى اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات طیبہ میں مساوات اور انصاف کی روشن مثالیں ملتی ہیں ایک مرتبہ قریش کی ایک خاتون چوری کے جُرم میں پکڑی گئی بعض عزیز ترین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس کی سفارش کرنا چاہی تو آپ صلى اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کی نہ سُنی اور فرمایا تم سے پہلے کی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ جب ان میں معمولی لوگ گناہ کرتے تھے تو ان کو سزا دی جاتی تھی اور جب بڑے لوگ کرتے تو ان کا جُرم نظر انداز کر دیا جاتا تھا
مظلوموں کو مدد اور محتاجوں کی اعانت آپ صلى اللہ علیہ والہ وسلم کا شیوہ رہا ہے مکہ مکرمہ کی زندگی میں جب ایک مظلوم نے مدد کے لیے خانہٴ کعبہ کے پاس فریاد کی تو اس کی مدد کے لیے چند دیگر افراد کے ساتھ رسول اللہ صلى اللہ عليہ والہ وسلم بھی کھڑے ہوئے عبداللہ بن جدعان کے گھر میں انھوں نے باہم مشورہ کر کے ایک جماعت بنائی اور یہ عہد کیا کہ مکہ میں جس شخص پر بھی ظلم کیا جائے گا ہم سب اس مظلوم کی مدد کریں گے یہ معاہدہ تاریخ میں *حَلَفُ الْفُضُول* کے نام سے سنہرے حروف میں لکھا گیا ہے ظلم کے خلاف متحد ہوکر آواز بلند کرنا اور مظلوم کو اس کاحق دلانا رسول اللہ صلى اللہ عليہ والہ وسلم کو اس قدر محبوب تھا کہ مدنی زندگی میں بھی ایک بار آپ صلى اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مجھے آج بھی حلف الفضول میں بلایا جائے تو میں اسے قبول کروں گا
سماج کے کمزور افراد کی خبرگیری اور مدد آپ صلى اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات طیبہ کی روشن مثالیں ہیں ایک صحابی حضرت خباب رضی اللہ عنہ کسی لشکر میں گئے ہوئے تھے ان کے گھر میں کوئی دوسرا مرد نہ تھا اور عورتوں کو دودھ دوہنا نہیں آتا تھا آپ صلى اللہ علیہ والہ وسلم روزانہ ان کے گھر جا کر دودھ دوہ آتے تھے دوسروں کے کام کر دینا آپ صلى اللہ علیہ والہ وسلم کو اس قدر محبوب تھا کہ ایک دفعہ نماز کے لیے جماعت کھڑی ہو چکی تھی اسی دوران ایک بدو نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دامن پکڑ کر کہا میرا تھوڑا سا کام رہ گیا ہے آپ پہلے اسے کر دیجئے آپ صلى اللہ علیہ والہ وسلم چُپ چاپ اس کے ساتھ ہو لیے اور اس کا کام پورا کرنے کے بعد نماز کے لیے تشریف لائے
مکہ میں ایک بار قحط پڑ گیا اہل مکہ جو مسلمانان مدینہ کے جانی دشمن بنے ہوئے تھے رسول کریم صلى اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کے ساتھ انسانی حسن سلوک کا اعلیٰ نمونہ قائم کرتے ہوئے مسلمانوں کی غربت و تنگدستی کے عالم میں بھی پانچ سو دینار جمع کر کے سرداران مکہ کو بھیجے کہ وہ قحط کے شکار لوگوں کی مدد کر سکیں
رسول اللہ صلى اللہ عليہ والہ وسلم کی زندگی پرنظر ڈالی جائے تو وہ ایک عام انسان کی طرح روزمرہ کے کاموں اور ہر دُکھ درد میں شریک نظر آتے ہیں کوئی دعوت دیتا تو فوراً قبول کر لیتے تھے سماجی تعاون اور خوشی و غمی میں شرکت کے لیے کوئی مذہبی رکاوٹ آپ کی راہ میں حائل نہیں تھی ایک یہودی خاتون کی دعوت آپ نے قبول فرمائی، اور اس کا کھانا کھایا اسی طرح ایک یہودی لڑکا بیمار ہوا تو آپ صلى اللہ علیہ والہ وسلم اس کی مزاج پُرسی کے لیے تشریف لے گئے، ایک بار نجران کے عیسائیوں کا وفد مدینہ آیا تو آپ صلى اللہ علیہ والہ وسلم نے خود مہمانداری کی اور وفد کے اراکین کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا حق و انصاف کے معاملہ میں بلا تفریق مذہب ہر انسان آپ کی نظر میں برابر تھا اگر کبھی اختلاف ہوتا تو ناحق کسی مسلمان کا ساتھ نہیں دیتے تھے
آج جب کہ دُنیا ایک عالمی گاؤں بن گئی ہے اور اس گاؤں میں مختلف مذاہب کے ماننے والے پڑوسی کی طرح رہنے لگے ہیں، سماجی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے پڑوسیوں کے حقوق اور ان کے ساتھ زندگی گزارنے کے آداب انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک سماج کے لوگوں کے درمیان پُرامن بقائے باہم اور خوشگوار زندگی کا سب سے بہتر نمونہ اور اصول میثاق مدینہ کے نام سے ہمارے سامنے موجود ہے رسول کریم صلى اللہ علیہ والہ وسلم جب مدینہ آئے تو وہاں کے مختلف قبائل اور اہل مذاہب کے ساتھ آپ صلى اللہ علیہ والہ وسلم نے معاہدہ فرمایا یہی معاہدہ میثاق مدینہ ہے اس کی دفعات کتنی مدبرانہ اور معقول ہیں، اس کا اندازہ ان کے الفاظ سے کیا جا سکتا ہے
۱: سب لوگ ایک ہی قوم کے فرد سمجھے جائیں گے یہودی مسلمانوں کے ساتھ ایک قوم ہے اور دونوں کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کی آزادی ہو گی
۲: اگرمعاہدہ کرنے والے کسی قبیلہ پر کوئی دشمن حملہ آوار ہوگا تو تمام قبیلے مل کر اس کا مقابلہ کریں گے
۳: شریک معاہدہ قبیلوں کے تعلقات خیرخواہی نفع رسانی اور نیک اطواری پر مبنی ہوں گے تاکہ جبر پر اور خلاف اخلاق امور میں کوئی اعانت نہیں کی جائے گی
۴: یہودیوں اور مسلمانوں کو برابر حقوق حاصل ہوں گے
۵: مظلوم کی ہر حال میں مدد کی جائے گی وغیرہ
میثاق مدینہ کی ان دفعات نے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان ایک مشترک سماج کی تشکیل کا اصول فراہم کیا ہے اور ان خطوط پر آج کے کثیر مذہبی کثیر تہذیبی اور کثیرلسانی سماج کی تشکیل کی جاسکتی ہے
مسجد نبوی میں ایک جانب ایک بدوی نے آ کر پیشاب کر دیا، تو آپ صلى اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک بالٹی پانی منگوا کر اس کو صاف کر دیا دیوار پر کسی نے تھوک دیا تو اسے کھرچ کر اس کی جگہ خوشبو لگا دی، غذائی سامانوں میں جن چیزوں کو کھانے سے منع کیا گیا اس کی بنیاد اسی بات پر تو رکھی گئی ہے کہ وہ خبیث و گندگی ہیں اور انسانی جسم و صحت کے لیے مضر ہیں۔ قرآن میں ہے *ویحل لہم الطیبات ویحرم علیہم الخبائث* یعنی لوگوں کے لیے اچھی و طیب چیزوں کو حلال اور گندی اور خراب چیزوں کو حرام قرار دیا شہری زندگی کے نوع بہ نوع سماجی مسائل اور ماحولیات سے متعلق سوالات کا بہترین حل اور جواب ہمیں کہیں مثالوں کی صورت میں اور کبھی اصولوں کی شکل میں رسول اللہ صلى اللہ عليہ والہ وسلم کی حیات طیبہ میں جگہ جگہ نظر آتا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان تو وہ ہے جس کے ہاتھ اور جس کی زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں
اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے اپنے رب کے سامنے جواب دہی کے احساس کو محرک بنایا گیا ہے ارشاد ہوا کہ تم میں ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر شخص سے اس کی مفوضہ ذمہ داریوں اور اس کے ماتحتوں کے بارے میں دریافت کیا جائے گا۔ احساس ذمہ داری اور احساس جوابدہی کا یہ تصور رشوت کے دروازے کو بند کر دیتا ہے سماجی زندگی میں آج کچھ سماجی لعنتیں گُھس گئی ہیں جس میں خواندگی زندگی سے تعلق رکھنے والے مسائل میں طلاق کی بڑھتی شرح اور جہیز کی مانگ سر فہرست ہیں
سماج میں باہمی اعتماد تعاون اور باہمی محبت کا فروغ سماج کی بنیادوں کو مضبوط کرتا ہے ایسی مضبوطی کے لیے رسول اللہ صلى اللہ عليہ والہ وسلم نے خاصا اہتمام فرمایا ہے بڑی تفصیل کے ساتھ ہدایت دی گئی ہے کہ کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی بُرائی نہ کی جائے کسی کی ٹوہ اور تجسس میں نہ پڑا جائے کسی کو مدد کے موقع پر بے یارو مددگار نہ چھوڑا جائے کسی کو بُرے نام اور بُرے لقب سے نہ پکارا جائے، کسی کے بارے میں بدگمانی نہ رکھی جائے ہر انسان سے محبت کی جائے اس کے تئیں حسن ظن رکھا جائے باہمی محبت کو بڑھاوا دینے کا بہترین نسخہ ہے آپ صلى اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ بتایا کہ ایک دوسرے کو تحفے تحائف دئیے جائیں، سلام کو رواج دیا جائے اس سے محبت بڑھتی ہے باہمی مدد اور تعاون کا درجہ اتنا اونچا کیاگیا کہ فرمایا جب تک انسان اپنے کسی بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس انسان کی مدد کرتا رہتا ہے

*عہدِ نبویﷺ کا شہری نظام
مدینہ منورہ کی شہری ریاست دس برس کے قلیل عرصہ میں ارتقاء کی مختلف منزلیں طے کر کے ایک عظیم اسلامی ریاست بن گئی جس کے حدودِ حکمرانی شمال میں عراق و شام کی سرحدوں سے لے کر جنوب میں یمن و حضر موت تک اور مغرب میں بحرِ قلزم سے لے کر مشرق میں خلیج فارس و سلطنتِ ایران تک وسیع ہوگئیں اور علمی طور سے پورے جزیزہ نمائے عرب پراسلام کی حکمرانی قائم ہو گئی
اگرچہ شروع میں اسلامی ریاست کا نظم و نسق عرب قبائلی روایات پر قائم و استوار تھا تا ہم جلد ہی وہ ایک ملک گیر ریاست اور مرکزی حکومت میں تبدیل ہوگئی یہ عربوں کے لیے ایک بالکل نیا سیاسی تجربہ تھا کیونکہ قبائلی روایات اور بدوی فطرت کے مطابق وہ مختلف قبائلی سیاسی اکائیوں میں منقسم رہنے کے عادی تھے یہ سیاسی اکائیاں آزاد و خود مختار ہوتی تھیں جو ایک طرف قبائلی آزادی کے تصور کی علمبردار تھیں تو دوسری طرف سیاسی افراتفری اور اس کے نتیجہ میں مسلسل سیاسی چپقلش فوجی تصادم اور علاقائی منافرت کی بھی ذمہ دار تھیں عربوں میں ناصرف مرکزیت کافقدان تھا بلکہ وہ مرکزی اور قومی حکومت کے تصور سے بھی عاری تھے کہ یہ نظریات ان کی من مانی قبائلی آزادی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے تھے وہ کسی غیر کی حکمرانی تسلیم ہی نہیں کرسکتے تھے یہ رسول اکرم صلى اللہ علیہ والہ وسلم کا سیاسی معجزہ ہے کہ آپ صلى اللہ وسلم نے دشمن قبائل عرب کو ایک سیسہ پلائی ہوئی قوم میں تبدیل کردیا اور ان کی ان گنت سیاسی اکائیوں کی جگہ ایک مرکزی حکومت قائم فرمادی جس کی اطاعت بدوی اور شہری تمام عرب باشندے کرتے تھے اس کا سب سے بڑا بلکہ واحد سبب یہ تھا کہ اب قبیلہ یا خون کے بجائے اسلام یا دین معاشرہ و حکومت کی اساس تھا اسلامی حکومت کی سیاسی آئیڈیا لوجی اب اسلام اور صرف اسلام تھا، جن کو اس سیاسی نصب العین سے مکمل اتفاق نہیں تھا ان کے لیے بھی بعض اسباب سے اس ریاست کی سیاسی بالادستی تسلیم کرنی ضروری تھی
ڈاکٹر حمید اللہ نے اسے پہلا تحریری دستور قرار دیا ہے وہ لکھتے ہیں 
مدینہ میں ابھی نِراج کی کیفیت تھی اور قبائلی دور دورہ تھا عرب اوس اور خزرج کے بارہ قبائل میں بٹے ہوئے تھے اور یہود بنو نضیر و بنو قریظہ وغیرہ کے دس قبائل میں تھے، ان میں باہم کئی کئی نسلوں سے لڑائی جھگڑے چلے آ رہے تھے اور کچھ عرب کچھ یہودیوں کے ساتھ حلیف ہوکر باقی عربوں اور ان کے حلیف یہودیوں کے حریف بنے ہوئے تھے ان میں مسلسل جنگوں سے اب دونوں تنگ آ چکے تھے اور وہاں کے کچھ لوگ غیر قبائل خاص کر قریش کی جنگی امداد کی تلاش میں تھے لیکن شہر میں امن پسند طبقات کو غلبہ ہورہا تھا اور ایک بڑی جماعت اس بات کی تیاری کررہی تھی کہ عبد اللہ بن ابی بن سلول کو بادشاہ بنا دیں حتی کہ بخاری اور ابن ہشام وغیرہ کے مطابق اس کے تاجِ شہر یاری کی تیاری بھی کاریگروں کے سُپرد ہو چکی تھی بلاشبہ حضور صلى اللہ علیہ والہ وسلم نے بیعت عقبہ میں بارہ قبائل میں بارہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے نقیب مقرر کر کے مرکزیت پیدا کرنے کی کوشش فرمائی تھی مگر اس سے قطع نظر وہاں کے ہر قبیلے کا الگ راج تھا اور وہ اپنے اپنے سائبان میں اپنے معاملات طے کیا کرتا تھا کوئی مرکزی شہری نظام نہ تھا، تربیت یافتہ مبلغوں کی کوششوں سے تین سال کے اندر شہر میں کچھ لوگ مسلمان ہو چکے تھے مگر مذہب ابھی تک خانگی ادارہ تھا اس کی سیاسی حیثیت وہاں کچھ نہ تھی اور ایک ہی گھر میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے تھے ان حالات میں حضور صلى اللہ علیہ والہ وسلم مدینہ آتے ہیں جہاں اس وقت اور متعدد فوری ضرورتیں تھیں 
۱: اپنے اور مقامی باشندوں کے حقوق و فرائض کا تعین
۲: مہاجرینِ مکہ کے قیام اور گزر بسر کا انتظام 
۳: شہر کے غیر مسلم عربوں اور خاص کر یہودیوں سے سمجھوتہ 
۴ : شہر کی سیاسی تنظیم اور فوجی مدافعت کا اہتمام 
۵: قریشِ مکہ سے مہاجرین کو پہنچے ہوئے جانی و مالی نقصانات کا بدلہ
ان ہی اغراض کے مدنظر حضور صلى اللہ علیہ والہ وسلم نے ہجرت کر کے مدینہ آنے کے چند مہینہ بعد ہی ایک دستاویز مرتب فرمائی جسے اسی دستاویز میں کتاب و صحیفہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے جس کے معنی دستور العمل اور فرائض نامہ کے ہیں اصل میں یہ شہر مدینہ کو پہلی دفعہ شہری ملکیت قرار دینا اور اس کے انتظام کا دستور مرتب کرنا تھا (ڈاکٹر حمید اللہ کی بہترین تحریریں مرتب قاسم محمود،ص :۲۵۳)

اس میثاق کے بنیادی نکات یہ تھے
۱: آبادیوں میں امن و امامن قائم رہے گا تاکہ سکون سے نئی نسل کی تربیت کی جا سکے
۲: مذہب اور معاش کی آزادی ہو گی
۳: فتنہ و فساد کو قوت سے ختم کیا جائے گا
۴: بیرونی حملوں کا مل کر مقابلہ کیاجائے گا
۵: حضورِ اکرمﷺ کی اجازت کے بغیر کوئی جنگ کے لیے نہیں نکلے گا
۶: میثاق کے احکام کے بارے میں اختلاف پیدا ہو تو اللہ کے رسولﷺ سے رجوع کیا جائے گا
اس معاہدے میں مسلمانوں یہودیوں اور مختلف قبیلوں کے لیے الگ الگ دفعات مرقوم ہیں یہ اصل میں مدینہ کی شہری مملکت کے نظم و نسق کا ابتدائی ڈھانچہ تھا یہاں واضح طور پر یہ بات ذہن میں رہے کہ حضور اکرم صلى اللہ وسلم یونان کی شہری ریاستوں کی طرح کوئی محدود ریاست قائم کرنا نہیں چاہتے تھے بلکہ آپ صلى اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک عالمگیر مملکت کی بنیاد ڈالی تھی جو مدینہ کی چند گلیوں سے شروع ہوئی اور روزانہ ۹۰۰ کلومیٹر کی رفتار سے پھیلتی رہی اس وقت دس لاکھ مربع میل کی مملکت تھی جب اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ والہ وسلم نے دُنیا سے پردہ فرمایا
(محمد رسول اللہ صلى اللہ عليہ والہ وسلم : ڈاکٹر حمید اللہ )
اس عالمگیر مملکت کے تصور کو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھایا اور سو برس کے اندر اندر یہ تین براعظموں میں پھیل گئی ۔
اس میثاق یعنی صحیفہ میں بلدیاتی نظام کے تعلق سے حسب ذیل امور سامنے آتے ہیں :

۱: امن و امان کاقیام 
۲: تعلیم و تربیت کی سہولتیں
۳: روزگار سکونت اور ضروریات زندگی کی فراہمی

*حضورﷺ اور شہری منصوبہ بندی*
ہجرت کے حکم کے بعد مدینہ میں مہاجرین کا سیلاب امڈ پڑا تھا اور آخر کار مدینہ میں مقامی باشندوں کے مقابلہ میں مہاجرین کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی
(صحیح بخاری ) 
ان نو واردوں کی آباد کاری کے متعلق حضور پاک صلى اللہ علیہ والہ وسلم نے شروع دن ہی سے ایک جامع منصوبہ تیار کر لیا تھا اس منصوبہ کی جزئیات کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نو آبادی (کالو نائزیشن )اور شہری منصوبہ بندی (ٹاوٴن پلاننگ ) میں عظیم انقلاب برپا کر دیا تھا نئے بسنے والوں کی اتنی بڑی تعداد کو اتنے محدود وسائل میں رہائش اور کام کی فراہمی کوئی آسان معاملہ نہ تھا پھر مختلف نسلوں طبقوں علاقوں اور مختلف معاشرتی و تمدنی پس منظر رکھنے والے لوگ مدینہ میں آ آ کر جمع ہو رہے تھے، ان سب کو سماجی لحاظ سے اس طرح جذب کر لینا کہ نہ ان میں غریب الدیاری اور بیگانگی کا احساس ابھرے نہ مدینہ کے ماحول میں کوئی خرابی پیدا ہو اور نہ قانون شکنی اور اخلاقی بے راہ روی کے رجحانات جنم لیں جیسا کہ عام طور پر ایسے حالات میں ہوتا ہے
رسول کریم صلى اللہ علیہ والہ وسلم کا ایسا زندہ جاوید کارنامہ ہے جو ماہرینِ عمرانیات کے لیے خاص توجہ اور مطالعہ کا مستحق ہے جدید شہروں میں آبادی کے دباوٴ سے پیدا ہونے والے پیچیدہ تمدنی سیاسی اور اخلاقی مسائل سے نمٹنے کے لیے سیرت النبی صلى اللہ علیہ والہ وسلم سے ماہرین آج بھی بلاشبہ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
دُنیا کو سب سے پہلے رسالت مآب صلى اللہ علیہ والہ وسلم نے اس راز سے آگاہ کیا کہ محض سنگ و خِشت کی عمارات کے درمیان میں کوچہ و بازار بنا دینے کا نام شہری منصوبہ نہیں، بلکہ ایسا ہم آہنگ اور صحت مند تمدنی ماحول فراہم کرنا بھی ناگزیر ہے جو جسمانی آسودگی روحانی بالیدگی دینی اطمینان اور قلبی سکون عطا کرکے اعلیٰ انسانی اقدار کو جنم دے اور تہذیبِ انسانی کے نشو ونما کاسبب بنے
مدینہ کی اسلامی ریاست کے قیام کے بعد دار الخلافہ کی تعمیر کے لیے موزوں جگہ کا انتخاب اور اس غرض کے لیے وسیع قطعہ اراضی پہلے ہی حاصل کرلیا گیاتھا مسجد اور ازواجِ مطہرات کے لیے مکانات بن جانے کے ساتھ دار الخلافہ کی تعمیر کا پہلا مرحلہ تکمیل کو پہنچا دوسرے مرحلہ کا آغاز نو وارد مہاجرین کی اقامت اور سکونت کے مختصر مکانات (کوارٹرز) کی تعمیر سے کیا گیا یہی وجہ تھی کہ تعمیرات کے اس دو مرحلے ومنصوبے پر ایک سال یا اس سے کچھ زیادہ عرصہ لگ گیا مدینة الرسول ایک لحاظ سے مہاجر بستی تھی گوسارے مہاجر وہاں اقامت نہ رکھتے تھے (طبقات ابن سعد ) ہو سکتا ہے جب مدینہ کی آبادی بڑھی ہو تو مکانات اور تعمیرات کاسلسلہ پھیل کر عہدِ رسالت مآبﷺ ہی میں قریب کی آبادیوں بنی ساعدہ، بنی النجار وغیرہ سے مل گیا ہو ورنہ ریاست کی پالیسی یہ تھی کہ مدینہ کی کالونی میں صرف مہاجرین کو بسایا جائے عوالی میں رہنے والے بنو سلمہ نے جب مدینہ آ کر آباد ہونے کی درخواست کی تو آپ نے اسے نا منظور کر دیا اور انھیں اپنے قریہ ہی میں رہنے کی ہدایت کی، ریاست کی نو آبادی اسکیم کا یہ بھی ایک اہم حصہ تھا کہ اللہ کی راہ میں وطن چھوڑ کر مدینہ آنے والے لٹے پٹے بے سروسامان اور بے یارو مدد گار مہاجروں کے قافلوں کو جائے رہائش سرکاری طور پر فراہم کی جائے بلکہ ان نو واردوں کو سرکاری مہمان خانہ میں ٹھہرایا جاتا اور ان کے کھانے اور دیگر ضروریات کا انتظام بھی سرکاری طور پر کیا جاتا بعد میں ان لوگوں کو مستقل رہائش کے لیے جگہ یامکان مہیا کرنا بھی حکومت کا فرض تھا گویا مہاجرین کے لیے روٹی کپڑا اور مکان کی فراہمی اسلامی حکومت کی ذمہ داری تھی
مہاجرین کی عارضی رہائش کا انتظام مسجد کے اندر کیمپ لگا کر یا صفہ میں کیا جاتا اگر مہاجرین کی تعداد زیادہ ہوتی یا قافلہ پورے قبیلہ پر مشتمل ہوتا تو انھیں عموماً شہر کے باہر خیموں میں ٹھہرایا جاتا تا آں کہ مستقل رہائش کا معقول انتظام نہ ہو جاتا آباد کاری کے دو طریقے اختیار کیے گئے اولاً یا تو کسی ذی ثروت انصاری مسلمان کو کہہ دیا جاتا کہ وہ ایک مہاجر کی رہائش کا اپنے ہاں انتظام کر لیں، مگر خیال رہے کہ صرف شروع کے ایام میں ایسا کیا گیا، جبکہ اسلامی ریاست صحیح طرح صورت پذیر نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی منظم تھی
مہاجروں کو ٹھہرانے کے لیے عموماً بڑے بڑے مکانات تعمیر کیے گئے تھے یہ مکانات کئی کمروں پر مشتمل تھے ایک کمرہ ایک خاندان کو دیا جاتا البتہ ایسے مکانات میں باورچی خانہ وغیرہ مشترکہ ہوتا اندازہ ہوتا ہے کہ حضورﷺ نے مدینہ کی کالونی میں سرکاری طور پر علیٰحدہ رہائش کے لیے جو مکانات بنوائے وہ تین کمروں کے تھے
(ماخوذ از ادب المفرد :امام بخاری )
عہد نبویﷺ کے اواخر میں مدینہ کا شہر مغرب میں بطحا تک مشرق میں بقیع الغرقد تک، اور شمال مشرق میں بنی ساعدہ کے مکانات تک پھیل چکا تھا رسول اللہ صلى اللہ عليہ والہ وسلم نے اب وہاں مزید مکانات تعمیر کرنے سے رُوک دیا، شہری منصوبہ بندی کے ضمن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا یہ اقدام زبردست اہمیت کا حامل ہے اس کی اہمیت کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں، جنھیں جدید صنعتی شہروں کے اخلاق باختہ اور انتشار انگیز معاشرہ کا قریبی مطالعہ کرنے کا موقع ملا ہو آپﷺ نے شہرِ نو (مدینہ) کو ایک خاص حد سے متجاوز نہ ہونے دیا اور اس شہر کی زیادہ سے زیادہ حد (۵۰۰) پانچ سو ہاتھ مقرر کی اور فرمایا کہ شہر کی آبادی اس حد سے بڑ ھ جائے تو نیا شہر بسائیں اور آپﷺ نے اپنی زندگی میں بھی اس اصول پر عمل کرتے ہوئے دو اقدام کیے ایک یہ کہ اضافی آبادی کو یا تو اور زمینوں میں منتقل کرنے کا حکم جاری کیا تاکہ اس طرح ایک طرف زرعی انقلاب برپا کیا جاسکے اور دوسری طرف نئے لوگوں کی رہائش کے لیے گنجائش نکالی جا سکے دوسری طرف یہ کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کی مفتوحہ بستیوں یا جوف مدینہ کے دیگر قریوں میں پھیلا دیا، تاکہ ایک جانب معاشرتی ناہمواریاں پیدا ہونے کے امکانات ختم ہوجائیں اور دوسری طرف صحت مند اور تعصبات سے پاک معاشرہ تخلیق کیا جا سکے اس میں مبالغہ نہیں ہے کہ رسالت مآبﷺ نے اپنے مقاصد میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی 
(نسائی، کتاب الصلاة )
آج کل کچھ مغربی ممالک میں ٹاؤن پلاننگ کے انھیں زریں اصولوں پر جنہیں رسول اللہ صلى اللہ عليہ والہ وسلم نے چودہ سو سال پہلے آزمایا تھا عمل کر کے معاشرتی ہیجان اور تہذیبی انتشار کی شدت کو کم کرنے میں ایک حد تک کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں

*مدینہ کی شہری ریاست*
موجودہ دور میں شہری حکومت کے مقاصد کچھ اس طرح ہوتے ہیں
۱: شہر کی گلیوں اور شاہراہوں کا بندوبست مارکیٹوں کی تعمیر رہائشی انتظامات۔
۲: پینے کے پانی کی فراہمی اور تقسیم 
۳: گندے پانی کی نکاسی کوڑے کرکٹ کے پھینکوانے کا بندوبست 
۴: تعلیم علاج دیگر فلاحی اداروں کھیل کے میدانوں کا قیام 
۵: چمن بندی اور شہر کی خوبصورتی اور تفریح گاہوں کا انتظام 
۶: ان کاموں کے لیے مالی وسائل اور کاموں کا احتساب
حضور پاک صلى اللہ علیہ والہ وسلم کی احادیث سے ہمیں بلدیاتی نظام کے بہت سے اصول ملتے ہیں جہاں تک محکمۂ احتساب کا تعلق ہے فارابی ماوردی اور طوسی اسی کی موافقت میں ہیں ماوردی نے محکمۂ احتساب کی خصوصیات کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ محکمۂ انصاف اور محکمۂ پولیس کے درمیان ایک محکمہ ہے محتسب کا فریضہ یہ ہے کہ اچھے کام جاری کرے اور بُرے کاموں کو رُوکے
بلدیاتی نظام میں سب سے اہم سڑکوں پلوں کی تعمیر اور دیکھ بھال کے علاوہ نئی شاہراہوں کی تعمیر اور آئندہ کے لیے ان کی منصوبہ بندی کا کام ہوتاہے بعض لوگ ذاتی اغراض کے لیے سڑکوں کو گھیر لیتے ہیں بعض مستقل طور پر دیواریں کھڑ ی کر لیتے ہیں فقہِ اسلامی میں اس کے بارے میں واضح احکام ملتے ہیں صحیح مسلم کی ایک روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضى اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم راستے میں اختلاف کرو تو اس کی چوڑائی سات ہاتھ ہو گی اس سے کم گلی بھی نہیں ہو سکتی
 (صحیح مسلم)
حضور اکرم صلى اللہ علیہ والہ وسلم نے سڑکوں پر گندگی ڈالنے سے روکا ہے آپ صلى الله عليه وسلم نے سڑکوں پر سے رکاوٹ کی چھوٹی موٹی چیز کو ہٹا دینے کو صدقہ قرار دیا ہے، سڑکوں پر سایہ دار درخت لگانے کا حکم ہے ابواللیث سمر قندی رحمۃ اللہ علیہ اپنے ایک فتویٰ میں لکھتے ہیں کہ کسی سمجھ دار آدمی کے لیے یہ بات زیبا نہیں کہ وہ راستہ پر تھوکے یا ناک صاف کرے، یا کوئی ایسا کام کرے جس سے سڑک پر پیدل چلنے والے کے پاؤں خراب ہوجائیں اسلام کا قانون حق آسائش اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ سڑک پر کوئی عمارت بنائی جائے
سڑکوں پر بیٹھ کر باتیں کرنے اور راستہ میں رکاوٹ کھڑی کرنے سے آپ صلى اللہ علیہ والہ وسلم نے منع کیا ہے آپ صلى اللہ علیہ والہ وسلم نے جانوروں تک کے لیے راستہ کی آزادی برقرار رکھی ہے قبل از اسلام مدینہ کی گلیوں میں گندے پانی کی نکاسی کا انتظام نہ تھا، بیت الخلاء کا اس زمانہ میں رواج نہ تھا لیکن مسلمانوں کی آمد کی وجہ سے جب شہروں کی آبادی بڑھنے لگی تو پھر ان مسائل کا حل تلاش کیا گیا شہر میں پینے کے پانی کی بہم رسائی کا سرکاری طور پر انتظام کیا گیا مدینہ میں پینے کے لیے میٹھے پانی کے کنوئیں اور چشمے بمشکل دستیاب ہوئے۔ حضرت عثمان رضى اللہ عنہ نے جو خود بھی مدینہ کی نو آبادی میں رہتے تھے، آن حضور صلى اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اہلِ مدینہ کے لیے یہودیوں سے میٹھے پانی کا کنواں بئرِ روما خرید کر وقف کردیا۔
(صحیح بخاری باب فضائل )
اسلام جسم و جان کی پاکیزگی اور ظاہر و باطن کی صفائی پر بہت زیادہ زور دیتا ہے وضو طہارت غسل کے احکامات اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں آپ صلى اللہ علیہ والہ وسلم نے مسجدیں بنا کر وہاں طہارت خانہ تعمیر کرنے کی ہدایت جاری کی اسلام کے عمومی مزاج اور آپ صلى اللہ علیہ والہ وسلم کے اس فرمان کے بعد گھر گھر غسل خانے بن گئے ہر مسجد کے ساتھ طہارت خانہ تعمیر کیے گئے
 (ابن ماجہ)
ہجرت سے قبل مدینہ میں ناجائز تصرفات عام تھے رسول اکرم صلى اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے سختی سے منع فرما دیا گلی یا کوچہ کی کم سے کم چوڑائی جھگڑا ہو جانے کی صورت میں سات ہاتھ ذراع مقرر کی گئی
(صحیح مسلم )
جوفِ مدینہ کی آبادیوں میں گلیاں عام طور پر تنگ ہوتی تھیں اس لیے مدینہ میں بھی کوچہ تنگ مگر سیدھے تھے باوجود یہ کہ آپ صلى اللہ علیہ والہ وسلم کا اور دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مکانات مختصر تھے مگر عام طور پر آپ صلى اللہ علیہ والہ وسلم نے کشادہ مکانات کو پسند کیا اور فرمایا خوش بخت ہے وہ شخص جس کی جائے رہائش وسیع اور پڑوسی نیک ہوں
 (امام بخاری ۔ باب ادب المفرد)
حفظانِ صحت کا خیال رکھنا اسلامی زندگی کا بنیادی نظریہ ہے صفائی اور پاکیزگی کو اسلام نے نصف ایمان کا درجہ دیا ہے گھر گھر کے باہر کا ہر مقام اپنے جسم اپنے کپڑوں کی پاکی کا حکم بار بار آیا ہے مسجدوں کو پاکیزگی کے نمونے کے طور پر پیش کیا گیا ہے سرکاری عمارتوں کو پاک صاف رکھنے کا حکم دیا گیا ہے احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ بعض بدوی مسجد نبوی کی دیواروں پر تھوک دیتے تو اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ والہ وسلم اپنے ہاتھوں سے اس جگہ کو صاف کرتے تھے وضو اور غسل کا نظام غلاظت سے صفائی کے احکام چوپال کھلیانوں کی جگہ دریاؤں کے کنارے اور تفریح کے مقامات کو پاک صاف رکھنا حفظانِ صحت کے اصول کے مطابق بھی ہے اور اس میں شائستگی کا اظہار بھی ہے
حفظانِ صحت ہی کے اصول کے تحت بلدیاتی نظام میں کھانے پینے کی چیزوں کے خالص بونے پر زور دیا گیا ہے، ملاوٹ کر نے والوں کے لیے سخت سزائیں اور عذاب کی وعید ہے پینے کے پانی کو صاف رکھنے اور گندے پانی کی نکاسی کے احکام بھی اسی عنوان کے تحت آتے ہیں اسی عنوان سے متعلق بیماریوں کے علاج کی سہولتیں بھی ہیں ان میں وباؤ کے خلاف حفاظتی تدابیر اور ہر وقت ان کے انسداد کی ذمہ داری شہری حکومت پر ہے
سایہ، چمن بندی عوامی تفریح گاہوں کا انتظام بھی عین اسلامی تعلیم کے مطابق ہے
 مثلاً سورۂ عبس میں ارشاد ربانی ہے کہ ہم نے زمین سے اناج اُگایا اور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے گھنے باغ اور میوے اور چارا یہ سب کچھ تمہاے اور تمہارے چوپایوں کے لیے بنایا ہے 
(سورۂ عبس آیت : ۳۲۔۲۷)
ہجرت کے وقت مدینہ باغوں کی سر زمین کہلاتا تھا اور یہاں کے لوگ باغات کے بہت شوقین تھے رسول صلى اللہ علیہ والہ وسلم نے شہر اور مسجد کی تعمیر کے وقت یہ کوشش کی کہ وہاں موجود کھجور کے درختوں کو کم سے کم نقصان پہنچے مسجد النبی صلى اللہ علیہ والہ وسلم کے دروازہ کے قریب کھجور کے درختوں کا ذکر کتب احادیث میں ملتا ہے، جہاں غسل خانہ اور طہارت خانہ بھی تھا اور کنواں بھی اسی جگہ تھا، مسجد النبی صلى اللہ علیہ والہ وسلم کے بڑے دروازہ کے بالمقابل حضرت ابو طلحہ انصاری رضى اللہ عنہ کا وسیع و شاداب باغ بیرحاء تھا جہاں حضور پاک صلى اللہ علیہ والہ وسلم اکثر تشریف لے جاتے ( صحیح بخاری ، نسائی ، ابن ماجہ )
مدینہ میں نکاسیِ آب کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں آیا کیوں کہ شہر اونچی ڈھلوانی جگہ پر تھا، اکثر کہیں سے کوئی پہاڑ ی ندی نالہ گزرتا تھا تو وہاں باندھ کے ذریعہ عمارات اور تعمیرات کو محفوظ بنا دیا گیا تھا
ہجرت کے بعد مدینہ میں خرید و فروخت کی سہولت کے لیے علیحدہ منڈی یا بازار بنا دیا گیا خیال یہ ہے کہ یہ منڈی بنو قینقاع کے اخراج (۳ھء)کے بعد قائم ہوئی ہوگی کیونکہ اس سے پیشتر عبد الرحمن بن عوف رضى اللہ عنہ اوردوسرے تجارت پیشہ مسلمان اپنا کاروبار قینقاع کے بازار میں کرتے تھے
(صحیح مسلم )
مدینے کا بازار مسجد النبی صلى اللہ علیہ والہ وسلم سے کچھ زیادہ فاصلہ پر نہ تھا، بازار خاصہ وسیع و عریض تھا اور آخر عہد نبوی میں نہایت بارونق اور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا تھا تجارت کے فروغ کے لیے جناب رسالت مآب صلى اللہ علیہ والہ وسلم نے زبردست کوششیں کی جن میں سب سے اہم آپ صلى اللہ علیہ والہ وسلم کا یہ فرمان تھا مدینہ کی منڈی میں کوئی خراج نہیں ہے
(فتوح البلدان، بلاذری )
زمانۂ جاہلیت میں خفارہ کا نظام اور قدم قدم پر محصول چنگی کی وجہ سے تجات میں بڑ ی رکاوٹیں تھیں آپ صلى اللہ علیہ والہ وسلم نے مختلف سیاسی اور عسکری مصالح کے پیش نظر یہ حکم صادر فرمایا جو دور رس نتائج کا سبب تھا اور دراصل اس طرح آپ صلى اللہ علیہ والہ وسلم نے چنگی کی لعنت ہی ختم نہ کی بلکہ جزیرة العرب کی تسخیر کے بعد تمام ملک میں، مدینہ کی طرح آزادانہ درآمدات اور برآمدات کی اجازت دے کر بین الاقوامی آزاد تجارت کی داغ بیل ڈالی اور جدید تحقیقات نے اس بات کا نا قابل تردید ثبوت فراہم کر دیا ہے کہ آزاد بین الاقوامی تجارت نہ صر ف اقوام و ملل کے لیے بلکہ پوری نو عِ بشر کی مادی ترقی کے لیے ضروری ہے جس کے ذریعہ بین الاقوامی طور پر اشیاء کی قیمتیں متوازن رکھ کر عوام کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے اس طرح اقوام خوشحال بن سکتی ہیں
مدینۃ النبی صلى اللہ علیہ والہ وسلم میں یہ کام اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ والہ وسلم خود انجام دیتے تھے حضور سرورِ کائنات صلى اللہ علیہ والہ وسلم مدینہ کے بازاروں میں نکلتے تو جگہ جگہ رُک کر ناپ تول کر پیمانہ دیکھتے چیزوں میں ملاوٹ کا پتہ لگاتے عیب دار مال کی چھان بین کرتے گراں فروشی سے رُوکتے استعمال کی چیزوں کی مصنوعی قلت کا انسداد کرتے اس ضمن میں سید نا حضرت عمر رضى اللہ عنہ حضر ت عبیدہ بن رفاعہ رضى اللہ عنہ حضرت ابو سعید خدری رضى اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن عباس رضى اللہ عنہ حضرت ابوہریرہ رضى اللہ عنہ حضرت انس رضى اللہ عنہ حضرت ابو امامہ رضى اللہ عنہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضى اللہ عنہ حضرت عائشہ صدیقہ رضى اللہ عنہا حضرت علی رضى اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بیان کردہ حدیثیں اصولوں کی تعین کرتی ہیں...

*سیرت النبی:* مولانا شبلی نعمانی
*سیرت المصطفیٰ:* مولانا محمد ادریس کاندہلوی
*الرحیق المختوم اردو:* مولانا صفی الرحمن مبارکپوری
*تاریخ ابن کثیر* (البدایہ والنھایہ)

*✍🏻📜☜ سلســـلہ جـــاری ہــے......*

*دعـــاؤں کا طلبـــگار*

_*مزید ایسی پوسٹیں حاصل کرنے کے لیے ھمارا گروپ جواٸن کریں*_
_*☜ گروپ میں ایڈ ہونے کے لئے Join لکھ کر اس نمبر پر WhatsApp کریں*_

_*_
_*📱 +923446544546*_

Written by Tayyab Rajpoot official +923446544546

No comments:

Imran Khan final call for a massive protest in Islamabad on November 24, 2024

Imran Khan, Pakistan's former prime minister, has issued a final call for a massive protest in Islamabad on November 24, 2024.   This an...